سائفرکیس، عمران خان اور شاہ محمود قریشی کی سزا کالعدم، اسلام آباد ہائیکورٹ کا بری کرنے کا حکم

سائفر کیس میں سزاؤں کیخلاف اپیلوں پر سماعت ہونے پر آج ہی فیصلہ محفوظ کیا گیا تھا،۔ اسلام آباد ہائیکورٹ نے سائفر کیس میں سزاؤں سے متعلق فیصلہ سنادیا۔سابق چیئرمین پی ٹی آئی اور شاہ محمودقریشی قریشی کی سائفرکیس میں اپیلیں منظورکرلی گئی ہیں۔

اسلام آباد ہائیکورٹ نے ٹرائل کورٹ کا فیصلہ کالعدم قرار دے دیا،محفوظ فیصلہ اسلام ہائی کورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق اور جسٹس میاں گل حسن نے سنایا۔

قبل ازیں اسلام آباد ہائیکورٹ میں سائفر کیس میں سابق چیئرمین پی ٹی آئی اور شاہ محمود قریشی کی اپیلوں پر سماعت ہوئی۔ چیف جسٹس عامر فاروق اور جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے سماعت کی۔

سماعت کے آغاز میں ہی عمران خان کے وکیل بیرسٹر سلمان صفدر نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ پراسیکیوٹرکے مطابق ہم نے 342 میں گناہ تسلیم کیا ہے۔ سیکریٹریٹ رولز کے مطابق اعظم خان جوابدہ ہیں ان سے پوچھا جانا چاہیے۔ سکریٹریٹ رولز کا ذکر حامد علی شاہ نے یہاں نہیں کیا۔

وکیل سلمان صفدر نے سپریم کورٹ کی مختلف عدالتی نظریوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اعظم خان نے سائفر سابق چیئرمین پی ٹی آئی کو دیا، اس سے متعلق کوئی دستاویز موجود نہیں۔

چیف جسٹس عامر فاروق کا کہنا تھا کہ سائفر وصولی سے متعلق تو آپ کے مؤکل کا اپنا اعتراف بھی موجود ہے۔ جس پر وکیل سلمان صفدر نے کہا کہ یہ تو پراسیکیوشن کی ذمہ داری ہے کہ وہ یہ بات ثابت کریں، قانون بڑا واضح اور اس حوالے سے سپریم کورٹ کے فیصلے موجود ہیں۔

سلمان صفدر نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ پراسیکیوشن نے کیس ثابت کرنے کی ذمہ داری پوری کرنی ہے۔ اگر 342 کا بیان لینا ہے تو مکمل بیان کو لیا جائے گا، ٹکڑوں میں بیان نہیں لے سکتے۔ رات 12 بجے تک سماعت ہوئی، صبح 8 بجے عمران خان اور شاہ محمود قریشی کا بیان ریکارڈ کیا جاتا ہے۔ جب 342 کا بیان ریکارڈ ہوا، اس دن فیصلہ بھی سنا دیا گیا۔

اس موقع پر جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ 2 کونسلز جنہوں نے ٹرائل کورٹ میں جرح کی انہوں نے کبھی کرمنل کیس لڑا ہے۔ اگر انہوں نے کیسز لڑے ہیں تو تمام کیسز کی لسٹ تیار کر کے عدالت میں جمع کروا دیں۔

اس دوران عمران خان کے وکیل نے عدالت کو آگاہ کیا کہ لاپرواہی کا الزام جو بانی چیئرمین پر لگا ہے یہ الزام ان پر لگتا ہی نہیں۔ 4 گواہان کے مطابق سائفر کی حفاظت اعظم خان کی ذمہ داری تھی، دو سال تحقیقات ہوئیں اس کے بعد ایف آئی آر درج ہوئی، باقی 8 کاپیاں بھی ایف آئی کی کارروائی کے بعد وآپس ہوئیں۔ جو 8 کاپیاں لیٹ آئیں ان کے خلاف کارروائی کیوں نہیں کی گئی؟

انہوں نے دلائل دیتے کہا کہ سائفر اگر گم ہوگیا تو انٹیلیجنس بیورو کو بتانا ہوتا ہے جو کہ نہیں بتایا گیا، غیر ذمہ داری کی بات ہورہی تو یہ کیس وزارت خارجہ نے کیوں نہیں بنایا؟ وزارتِ خارجہ دو ماہ بعد صرف گواہی کے لیے اس کیس میں آئے، جس بندے کو گواہ بنایا اس نے خود کہا کہ سائفر گم ہوگیا تھا، وزارتِ خارجہ کو میٹنگ کے لیے اپنی کاپی لانے کا کہا گیا تھا اور وہ اپنی کاپی ساتھ لے آئے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے